آیت اللہ اشکوری کامختصر تعارف
(آیت اللہ سیدنور الدین اشکوری مرحوم ۱۳۱۶ میں نجف اشرف میں پیدا ہوئے، آپ شہید صدر کے ابتدائی شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے شہید صدر کی شاگردی اس وقت اختیار کی جب شہید صدر معروف نہیں تھے آپ شہید کے مورد اعتماد شخصیات میں سے ایک تھے اور مختلف اجتماعی فعالیتوں میں اہم مناصب پر فائز رہے۔ شہید کے ساتھ یہی تعلق سبب بنا کہ شہید کی شخصیت،زندگی اور افکار کی خصوصیات سے زیادہ آشنا ہوئے۔ شہید صدر بین الاقوامی کانفرنس کے ساتھ ہی پژوہشگاہ تخصصی شہید صدر کی بنیاد رکھی گئی ، اور شہید کے تمام آثار کو پہلی بار موسوعۃ الامام الشہید السید محمد باقر الصدر کے عنوان سے شائع کیا آپ سوم اردیبہشت ۱۳۹۸ کو قم میں انتقال کر گئے۔)
( ذیل میں آپ کے شہید صدر کے بارے میں انٹرویوز سے کچھ اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔)
شہیدصدر کے افکار کی خصوصیات
آیت اللہ اشکوری نے شہید صدر کے افکار کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ:
جوکچھ شہید کے بارے میں بیان کر رہاہوں وہ میری اپنی شناخت کے مطابق ہے نہ ان کی شخصیت وفکار کی حقیقت۔
اولین مطلب جو مدنظر رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ شہید ایک نابغہ تھے، کسی نابغہ کو غیر نابغہ سے موازنہ نہیں کیاجاسکتا ہے۔ آپ اپنی خداداد صلاحیت کے پیش نظر جس میدان میں بھی وارد ہوتے ۔ نئے نظریات پیش کرتے، یا خود صاحب نظر تھے یا موجودہ نظریات کی تفسیر ووضاحت کرتے اور اہم مسئلہ کاجواب دیتے تھے ۔اگر ہم غور کریں تو ان کا سب سے زیادہ کام فقہ واصول میں نظر آتا ہے لیکن فلسفہ میں ایسے جدید نظریات ہیں کہ بہت سے لاینحل مسائل کو انہوں نے حل کیا ہے، متاسفانہ ا ن کے فلسفی نظریات علمی حلقوں میں زیادہ بیان نہیں ہوا۔ صرف فلسفتنا اور دیگر کتابوں کے کلامی پہلو پر بحث ہوئی ہے۔آپ کی کتاب’’الاسس المنطقیہ ‘‘ پر تاکید کرتا ہوں یہ کتاب نہ صرف مغرب بلکہ ہمارے دینی مدارس میں بھی ابھی تک ناشناختہ باقی ہے میں اس بارے میں تفصیل بیان نہیں کرسکتا لیکن اجمالی طور پر یہی کہوں گا علمی اور فکری اعتبار سے آپ کی اہم ترین کتاب یہی الاسس المنطقیہ ہے۔
شہید صدر نے دیگر موضوعات پر بھی جدید نظریات پیش کئے ہیں اور اسلامی معاشرے کے مختلف مسائل ومشکلات کاجواب اور راہ حل پیش کی ہے۔
سیرت ائمہ کے بارے میں شہیدصدر کی روش ،تجزیہ وتحلیل یا جدید نظریہ کے حوالے سے آپ کا کہنا ہے کہ:
جیسا کہ ائمہ کی زندگی کے مختلف ادوار تھے۔حضرت علی کی زندگی میں آپ پیغمبر کے ساتھ ایک فداکار سپاہی،خلفا کے دور میں ایک صبورشخصیت ، خلافت کے دور میں ایک عادل حاکم کے طور پر نظر آتے ہیں۔ امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلح جبکہ امام حسین نے یزید کے خلاف قیام کیا۔تو کیا ان دونوں میں اختلاف ہےَ؟ ظاہری اور عوامی نظر میں ایک طرح کا تضاد نظرآتا ہے۔ علما نے مختلف ادوار میں انتہائی گرانقدر اور دقیق تجزیے وتحلیل پیش کئے ہیں۔ لیکن ایک منظم ومنسجم تجزیہ جو تمام ائمہ کے ادوار پر صادق آئے اور تمام اجتماعی مسائل اور ہر زمانے کے مسائل کاحل پیش کرے یعنی ایسی تفسیر کہ تمام ائمہ کو ایک ہی نور،ایک ہی ہدف اور راستہ پر قرار دیں ہم نے نہیں دیکھا سوائے کہ شہید صدر نے اپنے تقرریروں میں جو بیان کیا ہے اس سلسلے میں شہید کے مطالب تاریخی،علمی اور تجزیاتی لحاط سے بہت ہمیت کے حامل ہیں۔ اور یہ نظریات ہمارے لیے مختلف مسائل میں انتہائی کاآمد اور آئند ہ کے لیے راہ گشا بھی ہیں۔
آیت اللہ اشکوری کا کہنا ہے کہ:
شہید صدر نے کوئی اقدام نہیں کیا اور کوئی بات زبان پر نہیں لایا اور کوئی منصب نہیں سنبھالا مگر اس میں امت اسلامی کی ضرورت کا ا حساس کیا۔ آپ کےآثار،تالیفات،افکار اور اقدامات خدا کی بندگی اور رضایت کے لیے تھے۔
آیت اللہ اشکوری نے شہید صدر کی شہرت کے حولے سے کہا کہ:
کتاب اقتصادنا شہید صدر کی پہلی کتاب تھی جس کی وجہ سے آپ پوری دنیا میں مشہور ہوئے اور عالم اسلام مین ایک عظیم مقام آپ کو اسی کتاب کی وجہ سے حاصل ہوا۔آپ پہلے اس کتاب کو جماعۃ العلما کے نام سے شائع کرنا چاہتے تھے مگر بعض ارکان کے اس کتا ب کے بعض مندرجات سے ساتھ اختلاف نظر کی وجہ سے آپ نے اپنے نام سے شائع کیا۔
آپ نے شہد صدر کو حقیقی عبد خدا قرار دیتے ہوئے کہا کہ:
شہید صدر ایسا انسان تھا جس میں ایک عبد خدا اور عظیم صفات جو ایک دینی پیشوا میں تھے آپ میں بطور اتم موجود تھا۔۔
آیت اللہ اشکوری نے شہید صدر کے تفسیر موضوعی کے بارے میں کہا کہ؛
شہید صدر سے پہلے اس موضوع پر بعض عالم اسلام کی شخصیات نے اشارہ کیا تھا مگر شہید صدر نے جامع انداز میں ایک نظریے کی صورت میں تفسیر موضوعی کو پیش کیا اور یہ نظریہ امت اسلامی کے لیے واضح،مفید،دقیق ہے۔ یہ نظریہ پردازی آپ کی کتاب ہمارے اقتصادیات اور بلا سود بینک اور دیگر کتابوں میں نمایاں نظر آتا ہے۔۔شہید صدر کی تفسیر موضوعی نظریاتی میدان میں اپنی مثال آپ ہے۔
شہید صدر نے تفسیر موضوعی میں مسائل اور اجتماعی مشکلات کو قرآن کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کی اور اس روش تفسیر کو اجتماعی مسائل کو حل کرنے کے لئے کلید کے طور پر پیش کیا،اس وقت بھی بہت سے جدید موضوعات ایسے ہیں جن کو قرآن سے استخراج کی جانب ہم محتاج ہیں۔۔
شہید کی نظر میں استنطاق کامعنی یہ ہے جب کوئی بھی جدید موضوع سامنے آجائے تو اس بارے میں اسلام کے نظریہ کو اس موضوع کے بارے میں ہم جان لیں کیونکہ یہ موضوع پیغمبر اور ائمہ کے زمانے میں موجود نہیں تھا اور ہم اس مسئلہ کو قرآن سے حل کرنے کی جانب محتاج ہے۔
اگر ہم قرآن کے بارے مین استنطاقی(قرآنی پوچھنا ) طریقہ کو سمجھ لیں تو عالم اسلام کے مسائل کو حل کرنے کی بنیادی کلید ہمارے ہاتھ میں آئے گی۔ قرآن سے مسائل کو حل کرنے کا نظریہ اس وقت تک موجود نہیں تھا۔شہید نے مختلف جدید مسائل کو قرآن سے حل کرنے پر توجہ دی اور اس ضرورت کااحساس کیا کہ اس روش سے آئندہ نسلوں کو آگاہ کریں۔ اب تک مختلف شخصیات نے اقتصاد کے بارے مٰیں کتابیں لکھی ہیں ان سب میں اقتصاد کا سادہ اور متفرق پہلو مدنظر رکھا گیا ہے جن میں کوئی نظریہ پردازی نظر نہیں آتی۔ لیکن شہید صدر نے اپنی کتاب ہمارے اقتصادیا ت اور بلا سودی بینکک سسٹم میں جدید نظریات پہلی بار پیش کیا اور اقتصادی میدان میں یہ ایک مبتکرانہ کام تھا۔
انہوں نے تفسیری ابحاث میں قرآن میں سنن تاریخی کی بحث کو موضوعی شکل میں پیش کیا اور عصر حاضر تک تاریخی سنن کے حوالے سے شہید صدر کا نظریہ انتہائی جامع اور سب سے اعلیٰ ہے اور قرآن سے تاریخی سنن کے بارے میں ایک محکم نظریہ معاشرہ میں پیش کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ جب کہ اس موضوع پر مزید گفتگو کی گنجائش موجود ہے۔
آیت اللہ اشکوری نے پژوہشگاہ شہید صدر کی تاسیس اور فعالیت کے حوالے سے کہا کہ:
۱۳۷۹ ہجری شمسی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس شہید صدر کے نام پر تہران میں منعقد ہوئی یہ ایک عظیم اور بے مثال کانفرنس تھی جس میں مختلف ممالک سے عالم اسلام کے علما، ،مولفین،محققین اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد مدعو تھے اور تین دن مسلسل صبح،دوپہر اور شام تین نشستوں میں یہ کانفرنس منعقد ہوئی اور مجموعا( ۲۱۰ )مقالات شہید صدر کے مختلف علمی وفکری پہلووں پر پیش کئے گئے۔اس کانفرنس مں بڑی تعداد میں اہم شخصیات نے شرکت کیں۔
اس کانفرنس کے اختتام پر میں اور دیگر شہید کے بعض شاگردوں نے بات پر اصرار کیا کہ شہید کےا ٓثار وتالیفات کی جمع آوری کے لیے ایک ادارہ تاسیس ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ یہ کانفرنس ختم ہوگی لیکن شہید کے نظریات وآثار کے لیے کوئی موثر اقدام نہیں ہوگا۔ اس لیے یہ موسسہ، سازمان فرہنگ وارتباطات، جمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی اور مجمع جہانی اہل بیت کے ذریعے تشکیل پائی بلکہ آپ کے شاگردوں کے ذریعے بنیاد رکھی گئی۔۔۔
اس تحقیقی ادارے میں شہید کے بہت سے آثار موجود ہیں ۔جوکہیں اوع نہیں پائے جاتے۔اور اس مرکز کی اہمیت بھی انہی آثار کی وجہ سے ہے۔اگر یہ مر کزوجود میں نہ آتا تو شہید صدر کے آثار کبھی جمع نہ ہوتا۔یہ مرکز شہید کے شاگردوں کی نظارت ونگرانی میں اس عالم فرزانہ کے بہت سے آثار کو تحقیق،تصحیح واصلاح،فہرست بندی کے بعد جذاب انداز میں شائع کرسکا ہے۔
آیت اللہ اشکوری نے اس مرکز کے ویب سائٹ کے حوالے سے مزید کہا کہ:
اب اس مرکز کی جانب سے ویب سائٹ کا افتتاح
WWW.mbsadr.com
کے نام سے ہوچکا ہے۔آہستہ آہستہ ہم شہید کے آثار اس سائٹ پر لارہے ہیں۔حقیقت میں شہید کے آثار کے بارے میں یہ ویب سائٹ انتہائی جامع ہے۔۔اس مرکز کی جانب سے بعض آثار شائع ہوچکے ہیں ۔مستقبل میں شہید کے آثار کتابی صورت محققین واہل علم کے پیش ہوں گے۔
اس مرکز میں شہید کے افکار،آثار ونظریات پر تحقیق کے لیے سہولیات موجود ہیں۔
مزید انہوں نے کہاکہ:ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں۔کی شہید صدر کے آثار کے ہم محافظ ہیں۔
منابع:
1۔شرح صدر:آیت اللہ اشکوری کے انٹرویوز کا مجموعہ
2۔ تلخیص مصاحبہ :مجلہ قرآنی رایحہ اشاعت خاص دربارہ افکار قرآنی شہید صدر