انبیاء ؑ کے انقلاب کی خصوصیت

مفکراسلام،شہید رابع آیت اللہ العظمی سید محمد باقر الصدر (قدس سرہ)

ترجمہ: شہیدسیدسعیدحیدر زیدی

مغرب کے طرفداروں اور مغرب زدہ لوگوں کی طرف سے بارہا اور مسلسل یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام دین ہے. تحریک نہیں‘ عقیدہ ہے نظامِ حیات نہیں۔ باالفاظ دیگر اسلام خدا اور بندے کے درمیان رابطہ ایجاد کرتا ہے لیکن کسی مملکت میں ایک سماجی انقلاب بپا کرنے کی صلاحیت کا حامل نہیں۔
یہ بے چارے اس بات سے واقف نہیں کہ اسلام ایک انقلابی تحریک کا نام ہے جو زندگی کو عقیدے سے جدا نہیں سمجھتا۔ اسلام میں معاشرتی حیات اور روحانی پہلو دو متفاوت عنصر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طول تاریخ میں اسلام ایک معاشرتی اور روحانی انقلاب رہا ہے۔

اسلامی عقیدے کا جوہر توحید ہے‘ اسلامی توحید قبول کرکے انسان غیر خدا کی بندگی سے آزاد ہوجاتا ہے۔
کلمہ”لا الہ الا اللہ“ کو قبول کرلینا انسان کو ہر قسم کی پرستشوں سے نجات دلا دیتا ہے اور انسان کو داخلی آزادی فراہم کرتا ہے۔ اسی فطری آزادگی کے نتیجے میں انسان دنیا کی تمام ثروت اور اس کے تمام ذخائر کو غیر خدا کی ملکیت سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ یعنی داخلی آزادی انسان کو خارج میں بھی غیر خدا کی ہر قسم کی وابستگی سے آزاد کردیتی ہے۔
امام امیر المومنین ؑ اپنے ایک خطبے کے ضمن میں ان دونوں حقیقتوں کو باہم مربوط کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ۔
*”العباد عباد اللہ و المال مال اللہ“*
”بندے خدا کے بندے ہیں اور مال خدا کا مال ہے۔“
راہِ خدا میں خواہ کیسے ہی موانع اور رکاوٹیں کیوں نہ در آئیں اسلام ان سب کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکتا ہے۔ خواہ وہ بت ہوں‘ خواہ خوفزدہ کردینے والے اُمور‘ خواہ اساطیر ہوں‘ یا وہ روئے زمین پر حکومت کرنے والے بادشاہ ہوں‘ خواہ وہ فرد کی حکومت ہو یا جماعت کی حکومت‘ خواہ عوام کا نام استعمال کرکے کسی خاص طبقے کے مفاد کیلئے کوئی سامنے آئے اور یہ چاہے کہ لوگوں کی فطری ترقی اور رشد کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرے اور ان کی گردنوں میں اپنی اطاعت و بندگی کا طوق پہنائے۔ مذکورہ سب کے سب مظاہر غیر خدا کی پرستش کی مختلف صورتیں ہیں اور اسلام انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ ان کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے۔

اسی بناء پر وہ اسلام جس کے قیام و نفاذ کے لئے انبیاء الٰہی مبعوث ہوئے اور جس کیلئے انتھک جدوجہد کی وہ ظلم و ستم‘ استحصال اور غلامی کے خلاف ایک معاشرتی انقلاب ہے۔
یہی وجہ تھی کہ وہ تمام انبیاء ؑ جو اس پرچمِ ہدایت اور مشعلِ نور کو بلند کئے ہوئے تھے انہوں نے اپنی تمام تر توجہات معاشرے کے محروم اور مظلوم طبقات پر مرکوز رکھیں۔ یہ وہی محروم لوگ تھے جنہیں افسانوی اور جھوٹے خداؤں نے انتشار و افتراق‘ فکری اضمحلال اور نفسیاتی محرومیوں میں مبتلا کر رکھا تھا تاکہ وہ ہمیشہ استحصالی عناصر اور استثمار کرنے والوں کیلئے ترنوالہ بنے رہیں۔

تاریخ میں رونما ہونے والے دوسرے انقلابات پر انبیاء کے بپا کردہ انقلاب کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ ایک ساتھ انسان کو داخلی طور پر اور جہانِ ہستی کو بیرونی طور پر آزادی عطا کرتا ہے اور ہم اسلامی تعلیمات کی اصطلاح کی روشنی میں اوّل الذکر آزادی کو ”جہادِ اکبر“ اور ثانی الذکر آزادی کو”جہادِ اصغر“ کا نام دیتے ہیں۔ جہاد اصغر (خارجی آزادی) کا کام جہاد اکبر (داخلی و روحانی آزادی) کے بغیر ناممکن ہے۔
اب تک کی گفتگو سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ۔
اولاً یہ کہ اسلام اس لئے نہیں آیا کہ استحصال کی ایک قسم کا خاتمہ کرکے اس کی جگہ کوئی دوسری قسم رائج کردے اور نہ ہی اس کی آمد کا یہ مقصد ہے کہ ظلم و سرکشی کی کسی ایک خاص شکل کو مٹاکر اس کی جگہ کسی دوسری شکل کو رواج دے۔
جس وقت اسلام انسانوں کو استحصال کی زنجیروں سے آزاد کرتا ہے تو عین اسی وقت خود انسانوں کے اپنے اندر موجود دوسروں کے استحصال کی بری جڑوں کو بھی کاٹتاہے اور کائنات اور زندگی کے بارے میں اس کے طرزِ فکر میں بنیادی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔
اللہ جلِّ شانہ‘ کا ارشاد ہے کہ۔
*”ونریدان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلھم ائمۃ ونجعلھم  الوارثین“*
”اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں۔“ (سورہ قصص ۸۲۔ آیت ۵)
غور کیجئے آیہئ کریمہ میں کس طرح وہ انقلابی اعمال کو پہلو بہ پہلو قرار دیا گیا ہے۔ یعنی محروم و مظلوم پیشوا بنادیئے جائیں گے اور اس عمل کے ساتھ ہی ساتھ وہ زمین کے وارث بھی ہوجائیں گے۔ یہ دونوں امر یعنی استثمار و استحصال کرنے والوں کے بجائے محروموں و مظلوموں کی جانشینی اور مستکبرین کے ہاتھوں سے زمامِ امور کا لیا جانا ایک ہی زمانے میں انجام پائیں گے۔
محروموں کا امام و پیشوا ہونا‘ یعنی ان کا اندر سے پاک ہونا تاکہ پیشوائی کے مرتبے پر پہنچ سکیں اور مثالی انسان بن سکیں۔
لہٰذا پیغمبروں کے ہاتھوں رونما ہونے والی کوئی بھی انقلابی تبدیلی جاگیرداری کی جگہ سرمایہ داری انقلاب‘ یا سرمایہ داری انقلاب کی جگہ پر ولتاریوں کے انقلاب کی مانند نہیں۔ یعنی انبیاء ؑ کے انقلاب کی صورت میں صرف استحصال کرنے والا نہیں بدلتا۔ بلکہ انبیاء ؑ کا مشن ہر قسم کے ظلم و ستم اور استحصال کا مکمل خاتمہ کا ہے۔

قرآنِ کریم ایک دوسری آیت میں ان محروموں کے اوصاف کا تعین کرتا ہے جنہیں زمین میں خلافت سونپی جائے گی۔
*”الذین ان مکنا ھم فی الارض اقامو الصلوۃ وا توالزکاۃ وامر وا بالمعروف و نھواعن المنکر وللہ عاقبۃ الامور۔“*
”یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے زمین میں اختیار دیا تو انہوں نے نماز قائم کی اور زکات ادا کی اور نیکیوں کا حکم دیا اور برائیوں سے روکا اور یہ طے ہے کہ جملہ امور کا انجام خدا کے اختیار میں ہے۔“  (سورہ حج ۲۲۔ آیت ۱۴)
ُُُ  دوسرے یہ کہ استحصال اور ظلم و ستم کے خلاف انبیاء ؑ کے جہاد نے دیگر معاشرتی انقلابات کے برعکس طبقاتی رنگ اختیار نہیں کیا۔ کیونکہ انبیاء ؑ کا جہاد ایک انسانی انقلاب کے لئے ہے اور ہر چیز سے قبل خود انسان کو داخلی آزادی عطا کرتا ہے۔ اسلامی انقلاب کا معاشرتی پہلو داخلی انقلاب کے بعد کی منزل ہے۔ یہاں تک کہ پیغمبر اکرمؐ انسان کو داخلی طور پر آزادی دینے والے انقلاب کو ”جہادِ اکبر“ کہتے ہیں اور بیرونی آزادی کے لئے انقلاب کو جیسا کہ ہم نے قبل ازایں بیان کیا ”جہادِ اصغر“ کا نام دیتے ہیں۔
اسلام داخلی آزادی اور جہادِ اکبر کے ذریعے نیک سیرت انسانوں کے دلوں میں خیر و عطا کے تمام دروازے کھول دینے میں کامیاب ہوا۔ یہاں تک کہ ظلم و سرکشی کے خلاف مقابلے کے میدان میں دولت مند اور تنگ دست شانہ بشانہ لڑے۔
کل کا استحصالی آج  مظلوموں کا ساتھی بن گیا تاکہ ظالموں کے خلاف ایک صفِ واحد تشکیل دے۔
ایسا اتحاد و اتفاق اس وقت وجود میں آتا ہے جب ”جہادِ اکبر“ (یعنی تزکیہئ نفس) کے ذریعے بلند انسانی اقدار روبہ عمل آتی ہیں۔

یہ بات جاننی چاہئے کہ ایسا انسان انبیا ء ؑ کی راہ کا راہی نہیں جو انسان کی قدر و منزلت کو مالکیت‘ ذرائع پیداوار اور زمین کی ملکیت کے پیمانوں پر ناپتا ہو اور یہ تصور کرتا ہو کہ انسانی قدر و قیمت اس ملکیت میں مضمر ہے اور یوں اپنے استحصالیوں سے زمین اور جاگیر چھیننے کی فکر میں لگ جائے۔ اس طرح تو سارا جہاد د و طبقات کی جنگ ہوجائے گا اور انسان نچلے طبقے سے بالائی طبقے میں جانے کی فکر میں رہے گا۔
بلکہ انبیاء ؑ کی راہ کا انقلابی وہ ہے جو انسانی اقدار پر ایمان رکھتا ہو اور انسان کی قدر و قیمت اسی بات میں مضمر ہے کہ وہ تیزی کے ساتھ خدا کی جانب حرکت کرے اور یہ حرکت اس کی تمام کوششوں کو انسانی اقدار کے حصول کیلئے کام میں لائے اور اسے استحصالیت کے خلاف ایک بے نیام تلوار بنا دے۔ وہ استحصالیت جو انسانی اقدار کی نابودی کا عامل اور انسانیت کو اس کی حقیقی راہ سے ہٹا دینے کا باعث ہے‘ وہ استحصالیت جو بلند ہدف تک رسائی کی راہ میں انسان کیلئے رکاوٹ بن جاتی ہے اور اسے مال و زر جمع کرنے میں مشغول کردیتی ہے۔
اس پیغمبرانہ انقلاب کی کامیابی کا واحد عامل ”جہادِ اکبر“ کے سلسلے میں اس انسان کی کامیابی کا پیمانہ ہے‘ اس کا معاشرتی مقام اور طبقاتی وابستگی نہیں۔…