مقالہ:سماحہ الشیخ الدکتور حیدر السعدی
ترجمہ: شیخ ترس علی حسینی نجفی
یہ مقالہ تین موضوعات پر مشتمل ہے۔
1۔شہید صدر علماومفکرین کی نظر میں
2۔علمی شخصیت کا مختصر جائزہ
3۔آپ کے چند قیمتی کلمات
1۔شہید سیدمحمد باقر الصدرعلما ومفکرین کی نظر میں
حضرت امام خمینی ؒ:
سیدمحمد باقر الصدرمغز مفکر اسلام تھے۔امید کی جاتی ہے کہ عالم اسلام آپ کے افکار سے وسیع پیمانے پر استفادہ کرے گا اور خاص طور پرمیں اس عظیم مفکر اسلام کی کتب سے استفادہ کرنے کی دعوت دیتا ہو ں۔
خداوند کریم آپ کواپنے آباء واجداد اور آپ کی عظیم مجاہدہ بہن کواپنی جدۂ طاہرہ کے ساتھ محشور فرمائے۔
آیت اللہ سید ابو القاسم خوئی ؒ:
سید باقر الصدر مظلوم ہیں کیوں کہ آپ مشرق میں پیدا ہوئے اور اگر آپ مغرب میں پیدا ہوتے تو آپ دیکھ لیتے کہ غرب آپ کے بارے میں کیاکہتا ہے،آپ ایک عظیم اور بے مثال شخصیت تھے۔اور اپنے افکار میں نابغہء روزگار اور منفرد حیثیت رکھتے تھے۔
رہبرانقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای:
سید محمد باقر الصدر جیسے عظیم انسان اور جلیل القدر عالم نے انسانی خدمت کے لئے جو علوم پیش کئے ہیں اس کی وجہ سے ہر علمی مجلس کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔یقیناآپ بغیر کسی مبالغہ کے ایک نابغہء روزگار اور افق علمی کے ماتھے پرچمکتا دمکتا ہوا ستارہ ہیں،اور اپنی علمی سربلندی کی بناء پر تمام علوم میں انتہائی گہری فکر،تخلیق اور شجاعت علمی سے بہرہ مند تھے،اور آپ علم اصول الفقہ، فلسفہ اور تمام دینی علوم میں ایک موسس اور صاحب مکتب علمی شخصیت تھے۔ اور ان علوم میں وہ انتہائی غیر عادی،معجزاتی قوت کے مالک اور بے مثال شخصیت تھے۔اور آج کے زمانے میں رائج تمام حوزوی علوم میں ایک مرجع ہونے کی حیثیت سے ایک مجدد تھے۔ وہ تمام موضوعات چاہے معاشیات و اقتصادیات سے ہوں،سیاست یا امور عامہ کی بہبود سے متعلق ہوں،امت اسلامیہ کی فکری نہج پر پرورش کرنے والی اور اس میں ابتدا کرنے والی شخصیت تھے۔اورانہوں نے ان موضوعات کے اندر وہ دائمی اثر چھوڑااور علم و بحث کے موتیوں کا وہ خزانہ چھوڑاہے، جوختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔مگر صد افسوس!اگر سید الشہید باقی رہ جاتے اورظالم وجابر کے مجرمانہ ہاتھوں شہید نہ ہوتے تو عالم اسلامی بالعموم اور عالم تشیع بالخصوص مرجعیت وقیادت علمی اور عملی دونوں میدانوں میں ایک تخلیقی شخصیت کا مشاہدہ کرتے،آپ بغیر کسی شک وشبہ، طلاب حوزہ علمیہ اور علمی شغف رکھنے والے جوانوں کے لیے نمونہء عمل ہیں۔انسانی ثقافت کے علمی شہہ پارے، اس المناک شہادت سے ختم نہیں ہوں گے۔آپ کا علمی طرز واسلوب رہتی دنیا تک ایک رہنما کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی پیروی طلاب کوعلمی میدان میں ایک اعلیٰ علمی طرز تفکر دے کر انہیں علمی سرفرازی عطا کرسکتا ہے۔
آج ہمارے حوزات، سید باقر الصدر جیسی شخصیت کے اشد محتاج ہیں اور آج ہم ہر میدان میں ان کے علمی عزم وہمت اور شجاعت کی اعلی مثال اورعالمی حالات کے تناظرمیں ان کے انتہائی نیاز مند ہیں۔
آیت اللہ سید محمد حسین فضل اللہ ؒ:
سید باقر الصدروہ عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے فکر اسلامی کو اپنے علم وفکر سے پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ اس کے مستقبل کو اپنے خون سے تحریر فرمایا اور وہ ان قلیل لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اپنے قلم کی سیاہی کو اپنے خون سے آمیزش عطا فرمائی ہے۔
سید امام موسیٰ الصدر ؒ:
سیاسی قائد پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اپنے حاضراور مستقبل کے بارے میں خاص فکر رکھتا ہو اور اس کے بارے میں فکرمند ہو اور یہ تمام چیزیں سید باقر الصدر میں بدرجہ اتم موجود تھیں اور اس عظیم الشان عالم کے لیے یہی کافی ہے کہ انہوں نے ان مسائل کا حل پیش کیا ہے جنہوں نے ڈیڑھ سو سال سے فقہائے کرام کو پریشان کئے رکھا تھا۔
شیخ محمد جواد مغنیہ ؒ:
یہ وہ عظیم شخصیت ہیں جو نجف اشرف کو زرد صفحہ سے نکال کرسفید صفحہ پر لے آئے اور دنیا کے سامنے نجف کا جدید تعارف کرواکر اس کے روپ کو نکھار دیا۔
2️۔شہید صدر ؒ،پیدائش سے علمی بلوغ تک۔
آپ مشیت الٰہیۃ کے مطابق کاظمین میں پیدا ہوئے اورامام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے جوار میں ان کے حلم وتقویٰ کی فضاؤں میں سانس لیا۔آپؑ کے علم وجود کے زیر سایہ میں پلے بڑھے۔ آپ نے صغر سنی ہی میں یتیمی کا داغ دیکھا اور اپنے بڑے بھائی سید اسماعیل الصدرؒ کے سایہء عاطفت میں جوان ہو کر ہمارے لیے یہ پیغام چھوڑاکہ علمی نابغہء روزگاری اور کمالات میں نامساعد حالات مانع نہیں بن سکتے بلکہ یہ نامساعدحالات، اس بلند بالا درخت کی طرح ہیں جو سخت چٹان کے سینے سے زندگی کا خراج لے رہاہو۔پھر اس کے بعد نجف اشرف کی طرف ہجرت فرمائی تاکہ باب مدینۃ العلم میں اذن دخول لے کر اس شہر علم سے استفادہ فرمائیں جو رحمت العالمین لے کر آئے۔یہاں آپ نے اپنی مراد علم پا لی۔آپ اپنے تمام ہم عصروں میں ایک منفرد اور ایک مختلف شخصیت کے مالک تھے اورتمام علمی میدانوں میں اپنا ایک مخصوص مقام رکھتے تھے۔
آپ نے حوزہ علمیہ میں اپنے نئے اور مخصوص جدید طرز پر دروس پڑھے اور اسفار جیسی کتاب میں آپ نے اپنے مخصوص استاد الشیخ الصدر بادکوبی سے یہ طے کیا کہ مطالب میں بیان کروں گا اور آپ صرف میرے اشکالات کا جواب دیں گے اور تقریبا چھ ماہ میں تمام کتاب مکمل پڑھ لی اور وہاں نقل کیا گیا ہے کہ کتاب مکاسب بھی آپ نے اسی طرز پر پڑھی اور چھ ماہ میں اسے بھی مکمل کیا۔آپ اپنے زمانے میں عبقری اور زمانے کی رفتار سے بڑھ کر حرکت کرنے والے انسان تھے۔ گیارہ سال کی عمرمیں علم منطق پڑھا اور علم منطق کی کتابوں پر اپنی طرف سے اشکالات کی شکل میں ایک رسالۃ تحریر فرمایا۔اپنی حیات مقدسہ کے بارہویں سال کی ابتدا ہی میں معالم الاصول اپنے بھائی سید اسماعیل صدر سے پڑھی اور اسی طرح اپنی بے باک صلاحیتوں کی وجہ سے وہ اشکالات کرتے تھے جو صاحب کفایۃ الاصول فرماتے تھے اور آپ نے ابھی تک کفایۃ پڑھی بھی نہیں تھی۔مثلا آپ نے صاحب معالم الاصول کے مبحث ضد میں مسلک مقدمیۃ پر اشکال کیا کہ اس سے دور لازم آتا ہے تو آپ کے بڑے بھائی نے جواب دیا کہ ہاں صاحب کفایۃ نے بھی یہی اشکال فرمایا ہے۔آپ کا عالم شباب ہی میں افاضل حوزہ میں شمار ہوتا تھا اور اٹھارہ سال کی عمر میں آپ درجہء اجتہاد پر فائز ہو گئے تھے، اور آپ علمی شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور علمی حلقوں میں ایک ابرز شخصیت کے مالک تھے۔بلکہ آپ کے بارے میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ آپ بلوغ سے پہلے درجہء اجتہاد پر فائز ہو گئے تھے اور اسی سبب سے آپ نے مراجع عظام میں سے کسی کی تقلید نہیں کی تھی۔آپ ہمیشہ علمی مطالب کو انتہائی عمیق فکر سے دیکھتے تھے۔اور انہیں کافی گہری سوچ بچار کے بعد قبول کرتے تھے۔آپ اکیس سال میں حامل اعباء مرجعیت سے ہمکنار ہو چکے تھے اور استاذ المراجع زعیم الحوزہ السید ابوالقاسم الخوئی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصدیق فرمائی۔اور پچیس سال کی عمر میں آپ نے درس خارج دینا شروع کیا۔
آپ تمام علمی اور عملی میدانوں میں ایک عظیم موقف اور شجاعت اور بے باک آراء رکھنے والی شخصیت تھے اور اسی وجہ سے آپ نے حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے حزب بعث کے مکمل بائیکاٹ کاایک دلیرانہ فتویٰ دیا اوراس کی رکنیت کو حرام قرار دیا اور آپ ہی فقط اس رائے میں وحید وفریدتھے جبکہ حزب بعث اپنی قدرت کے اوج پر تھی۔
آپ نے جب دیکھا کہ مارکسیت اور کمیونزم کی تحریک عالم اسلامی میں خصوصی طور پر نوجوانوں کو ورغلا رہی ہے اور ان کے افکار پر اثر انداز ہو رہی ہے توآپ نے فلسفتنا لکھی اور علمی طور پراس کتاب نے اسلامی اور غیر اسلامی افکار کے میدان میں تہلکہ مچادیااور عالم افکار میں تمام غربی اور مارکسی نظریہ معرفت کے باب میں تمام نظریات پر علمی اشکالات فر ماکر اسلامی نظریہ معرفت کو زندہ و جاوید بنادیااور تمام عالم اسلام کا سر فخر سے بلند فرمادیا۔اور خصوصی طور پر مغربی فلسفہ مادیات پر علمی اشکالات فر ماکر اسے انسانیت کے لئے خطرناک ثابت کیا۔آپ اس علمی معرکے میں اکیلے ہی تھے۔
سید الشہیدؒ ان ابرز شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے فکر اسلامی کے میدانوں میں انقلاب اور انتہائی گہرافکری اسلوب اور علمی معارف اسلام کو ایک نیا بلند مرتبہ عطا فرمایا۔
آپ ہی نے پورے عالم کے سامنے اسلام کاایک سیاسی اور ایک اجتماعی دین کی حیثیت سے تعارف کروایا اوراسے کتابوں کی حد سے نکال کر ایک عملی،سیاسی اوراجتماعی نظریہ رکھنے والے دین کے طور پردنیا کے سامنے رکھا، تاکہ آنے والی نسلیں اس پر عمل پیرا ہو سکیں۔اور اس کے لئے آپ نے اقتصادیات کے باب میں اقتصادنا لکھی اور تمام عالم خصوصا عالم اسلام کے سامنے اسلامی اقتصاد کانظریہ ہی پیش نہیں کیا بلکہ باقی تمام عالم کے نظریات کو انسانی اجتماعی سلوک کے لئے نقصاندہ قرار دیا۔اوراسلامی اقتصادیات کو فطرت انسانیت کے لئے مناسب اور موزوں قرار دیا۔اور خصوصا اس وقت دنیا میں رائج اقتصادیات میں اشتراکیت اور مادہ پرستی کے نظریات کو ناکام ثابت کیا۔
آپ نے ہر علم میں ہمیں ایک جدیت اورعلمی تخلیق عطا فرمائی۔مثلا علم منطق اور فلسفہ کے باب میں علمی جواہرات کا مرقع الاسس المنطقیہ للاستقراکے نام سے علمی تحفہ عطا فرمایا۔جس نے علم فلسفہ اور منطق کے میدان میں اساسی اور بنیاد ی مسائل پرسوالات اٹھائے اور ان میں ایک نئے رنگ کے ساتھ اس علم کے ماہرین کے سامنے نئے نظریات پیش کئے۔اور اس کا آج متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔
اور آپ نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ لوگوں تک اپنے علم و نظریات کو آسان زبان میں پیش کریں اور اسے دقیق علمی اصطلاحات سے پاک کرکے پیش کریں۔لہذا مطلب واضح اور شفاف کرکے علمی رسالہ عملیہ نئے اور جدید رنگ میں الفتاویٰ الواضحہ کے نام سے پیش کیا۔ اور شرعی احکام کو انتہائی سادہ عبارات میں پیش کیا جسے ہر مکلف آسانی کے ساتھ بغیر کسی تشریح کرنے والے کے رجوع کر سکتا ہے۔
قرآن مجید اور تاریخ اور عقیدہ کے باب مکتبۃ الاسلامیہ میں آپ نے اہم پیش رفت فرمائی اور علم الاصول میں خصوصا ایک نیا جدید فکری مدرسہ ایجاد فرمایا اور اس علم میں ایسے جدید علمی نظریات بیان فرمائے جو آپ سے پہلے کسی نے پیش نہیں کئے تھے جیسے حساب احتمالات کا نظریہ، نظریہ تولّد الذاتی والموضوعی،نظریہ التعویض السندی فی حجیۃ خبر الواحد اور اسی طرح وہ علمی مسائل جن پر علمائے اصول اجماع قائم کئے ہوئے تھے ان پر اشکالات کئے جیسے قبح العقاب بلابیان، علاقۃ الالفاظ بالمعانی،بعض اصول عملیہ کا بعض پر حاکم ہونا۔ اسی طرح بعض مسائل میں مشہور کی موافقت اختیار فرمائی لیکن انہیں بھی اپنے خاص اسلوب کے ساتھ اپنایا مثلاحکم ظاہری اور حکم واقعی کے درمیان جمع کا حکم، اپنے خاص نظریے التزاحم الحفظی کے عنوان سے قبول فرمایا۔
3️۔شہید صدر کے اقوال:
آج ہم اسی علم و فکر اسلامی کے میدان میں اس محفل میں، انہی ابداعات کی روشنی میں ایک رقم شدہ تاریخ کی یاد منا رہے ہیں جسے سیدالشہید ؒنے اپنے خون جگر سے تحریر فرمایا تھا۔ اور آخر میں ان سنہرے کلمات میں بعض کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں:
1۔ہر اصلاحی عمل کی بنیاد سب سے پہلے ایک ایسے عام مفہوم اور عام تصوّر پر مبنی ہونی چاہئے جس کی تحدید و تعیین حوزۂ امت کے ہاتھ میں ہونی چاہئے،اور اس حوزۂ امت سے کیا مراد ہے؟اور اس کا امت کے ان مفاہیم کی تشخیص میں کیا کردار ہے۔؟اسی لئے واجب ہے کہ ہم سب سے پہلے امت کے لئے اس حوزوی پیام کی تشخیص کریں اورپھر اسی کی روشنی میں حوزے کا نظام اداری اور سیاسی تشکیل دیں اوراسی کے تحت اس کا تدریسیی نظام بنائیں اور انہیں مفاہیم کی روشنی میں حوزے کی تشکیل کے بعد اس کے فریضے پر عمل پیرا ہوں نہ کہ پہلے ہم حوزہ بنا لیں پھر اس کے بعد اس فریضے کے بارے میں سوچ بچار کر رہے ہوں۔
2۔بعض اوقات ایک انسان اپنے شخصی وظائف اور فرائض کی ادائیگی میں عادل ہوتا ہے لیکن اپنے اجتماعی سلوک و رفتار میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں اسی طرح عادل نہیں ہوتالہذا یہ مقام فکر ہے اور اس جانب سخت توجہ اور التفات کی ضرورت ہے اور اس طرف انتہائی عمیق فکر نہ کی گئی اور اس پر سنجیدگی سے مسلسل عمل نہ کیا گیا تو دین داری کے نام پر بہت بڑا خلل پیداہو جائے گا۔
3۔کیا آپ اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ وہی نجف اشرف ہے جو ایک حوزہ اور علمی مرکز ہے اور اس نے اپنے فکری،علمی،روحی اور دینی وجود سے تمام عالم کو روشن کرنا ہے،یا کم ازکم عالم اسلامی کو منوّر کرنا ہے یا اس کم ازکم تمام عالم تشیع کو اپنے نور سے روشن کرنا ہے۔ہمارے ارد گرد ہزاروں لوگ رہتے ہیں جو اپنے ابتلائی احکام کو بھی نہیں جانتے،اللہ کی بارگاہ میں ان کے بارے کون مسؤل ہے؟!! اور ہاں ہم ہی ہیں جو دین سے منحرف ہونے والے ہر فرد کے بارے میں خداوند کریم کی بارگاہ میں جوابدہ ہیں۔اور عالم امکان میں آخری نکتے میں رہنے والے کے بارے میں مسؤل ہیں تو کیسے اپنے ملک اور اپنے شہر اوراردگرد کے لوگوں کے بارے میں جواب دہ نہیں ہوں گے؟! اور ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ کی طرف دعوت دینے والے ہیں اور ہمارے ملک ہی میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے اور ہم ان کے بارے فکرمند تک نہیں ہیں۔
4۔کیوں یہ حوزہ آج اس ملک میں کئی سو سال ہونے کے باوجود عالم افلاس اور غربت کی زندگی گزار رہا ہے،اور کیوں لوگ یا بعض لوگ آج اس سے بغض اور عداوت کا اظہار کر رہے ہیں اور اپنے دلوں میں اس سے کینہ اور حسدرکھتے ہیں اور ہماری بربادی کے منتظر ہوئے بیٹھے ہیں؟!
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ ان کے جرم سے پہلے ہمار اا پنا جرم ہے۔اور ان کی مسؤلیت سے پہلے ہماری اپنی مسؤلیت اور ذمہ داری ہے۔ کیونکہ ہم نے ان کے ساتھ کوئی اجتماعی کام انجام ہی نہیں دیا!! ہاں ہم ان کے اجداد کے ساتھ فقط واسطہ اور معاملہ سر انجام دے رہے ہیں (یعنی انکی نمازقضا اور روزے اجارے پر لیتے ہیں اور ان کی بخشش کے لئے دعا گو ہیں!!)اور خود ان کے حوالے سے کوئی مسؤلیت نہیں انجام دے رہے ہیں۔اسی وجہ سے آج کی یہ نسلیں ہمارے ساتھ بغض و کینہ رکھتی ہیں اور آج ہماری بربادی کی منتظر بنی بیٹھی ہیں کیونکہ یہ صرف یہی شعور رکھتے ہیں کہ ہم فقط مُردوں کے ساتھ تعامل کر رہے ہیں ہمیں زندہ لوگوں سے کوئی سروکار نہیں ہے!!۔اور کیونکہ ہم نے ان کے سامنے کوئی چیز پیش ہی نہیں کی اور ان کے حق میں کوئی ذمہ داری ادا ہی نہیں کی!!
5۔وہ اسلام جو آج آپ کی اور آپ کے خاندان کی کفالت کر رہا ہے اور آپ پر خرچ کر رہا ہے اور ہمارا بھی کفیل ہے اور ہمارے اوپر اپنے اموال خرچ کر رہا ہے،ہم اپنے وجود کے اعتبار سے اس اسلام کے مقروض ہیں،اپنے اموال کے اعتبار سے اس کے مقروض ہیں،اپنی عزّت و کرامت کے اعتبار سے اس کے مقروض ہیں اور ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ سب اسلام کا عطاکردہ ہے اور اس میں ہم اسلام کے مقروض ہیں،اور اسی اسلام کی راہ میں اگر ہمیں ایک ہفتہ،دو ہفتے یا ایک مہینہ،دو مہینے کوئی مصیبت و تکلیف اٹھانی پڑے، یا اللہ کے راستے ہمیں اذیت برداشت کرنی پڑے تو واجب ہے کہ ہم ڈٹ کر قائم ودائم رہیں اور اس کے راستے میں ٹوٹ پھوٹ سے بچتے ہوئے صبر اختیار کریں، اس راستے میں اپنے تمام وجود کو اس راہ میں قربان کر دیں تاکہ اسلام و مسلمین کی عزّت و کرامت بلندوبالا ہو جائے۔ اگر یہ اسلام ہم پر اس قسم کا عمل و حرکت واجب قرار دے تویہ کوئی غیر طبیعی واجب نہیں ہے بلکہ یہ عادی واجبات میں سے ایک واجب ہے۔کیونکہ اسلام ہمارا وہ محسن حقیقی ہے جس نے ا پنا سب کچھ ہمارے سامنے پیش کر دیا اور ہم نے بھی لے لیا اور ہمیشہ اس نے ہمارے اوپر اپنا فضل لٹایا اور اس سے ہم استفادہ کرتے رہے اور یہی اسلام ہے جس نے دائما ہماری خدمت کی ہے اور ہم اس کی خیرات،اس کی عظیم عزّت و کرامت اور اس سے کماتے رہے ہیں۔بلکہ اگر اسلام نہ ہوتا تو ہماری کیا قدرومنزلت ہوتی۔؟
6۔آج ہم سب کے سامنے یہ واضح اور روشن ہے کہ اگر اسلام کی راہ میں ہمارے عمل وکردار کے اعتبارسے کوئی خلل ہے یا ہمارے اخلاق کے اعتبار سے کوئی سقم ہے یاہمارے جذبات میں کوئی کوتاہی ہے تو اس راہ میں وہ ہماری سستی اور کاہلی کا انحراف ہے یہی وہ بنیادی مصیبت ہے جس کی وجہ سے حوزہ علمیہ میں ہر قسم کا عمل صالح پروان چڑھنے کی بجائے حرام و ہلاک ہو جاتا ہے۔یہی وہ بنیادی عمل ہے جس نے ہمیں آج اس مقام تک پہنچایا ہے اور اگر اس حوزہ کی داخلی صورت حال تبدیل نہ ہوئی تو یقیناعنقریب ہمیں تباہ وبرباد کر دے گی،صرف خارجی حالات کا تبدیل ہونا کافی نہیں ہے بلکہ داخلی حالات کا تبدیل ہونا ضروری اور اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ضمیروں کی تطہیر ہو،ہمارے نفوس کی تطہیر کی ضرورت ہے اور آج ہمیں اپنی مسؤلیت و فریضہ کی معرفت اور اس کے شعور کی حاجت و ضرورت ہے….
آخر میں، میں اپنے دل کی گہرائیوں سے آپ اور آپ کی مظلومہ بہن کی ارواح طاہرہ کواپناسلام و تحیۃ پیش کرتا ہوں، اور اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ دونوں کواپنی رحمت خاصہ کے سائے میں لے لے اور انھیں بلند قدرو منزلت عطا فرمائے۔اور میرا سلام ہو اس سید الصدرؒ پر جس نے اپنے خون سے معالم اوراصول اسلام کو پروان چڑھایا اور آج ہر ملّت یہ آرزو رکھتی ہے کہ وہ کاش ہم میں ہوتے۔
والسلام