*اسلام‘شہید صدرؒ کی نظر میں*
*شہید سید سعید حیدر زیدی*
شہید صدرؒ اِس بات کے معتقد تھے کہ اسلام انسانوں کی دنیا اور آخرت سنوارنے کے لیے آیاہے۔اسلام دنیا اور آخرت کو جدا جدا نہیں سمجھتا۔آپ کی نظر میں دین کا دائرہ انتہائی وسیع ہے اور یہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔آپ کاکہناہے کہ:
”مغربی فکر کے اسیر افراداپنے بد سیرت آقاؤں کی پیروی میں کہتے ہیں کہ:”اسلام انسانوں کے فقط روحانی تقاضوں کا جواب دیتا ہے‘اُن کی اجتماعی اور اقتصادی مشکلات کاحل پیش نہیں کرتا۔اسلام فقط ایک عقیدے پر مبنی ہے جو خدا اور انسان کے تعلق تک منحصرہے۔لہٰذا دستور ِ حیات کی تشکیل کے لیے ایک اور فکر کی ضرورت ہے‘ اور انقلاب کے لیے کسی اور رہنما کی پیروی درکار ہے۔“لیکن اِن کے بے بنیاد گمان کے برخلاف‘اسلام کی بنیاد ایک ایسا تحول اور انقلاب ہے جو زندگی اور عقیدے کے درمیان کسی سرحد کاقائل نہیں‘اور جو اجتماعی پہلوؤں کو فکری نظام سے جدانہیں کرتا۔“
شہید صدر ؒ،اسلام کو ایک ایسے نظام کاحامل سمجھتے ہیں جو انسانی حیات میں نظم ونسق کے قیام کی صلاحیت رکھتاہے۔آپ فرماتے ہیں:
”اسلام اپنی گہرائی میں ایک زندہ عقیدہ‘زندگی کے لیے ایک کامل نظام اور تربیت اور سوچ بچار کی ایک مخصوص روش ہے۔”
ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں:
”اسلام انسانی زندگی کا نظم ونسق چلانے کی صلاحیت کا حامل اور اِس کے مختلف شعبوں کی تنظیم کے لیے دائمی زندہ اور عملی منصوبوں کامالک ہے۔“
آپ احکامِ شریعت کا مقصد اجتماعی زندگی کو نظم وترتیب میں لاناقرار دیتے ہیں‘اور حکمِ شرعی کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
”حکمِ شرعی ایک ایسا قانون ہے جو انسانی زندگی کے روابط وتعلقات کی تنظیم اور اُسے منظم کرنے کے لیے خدا کی طرف سے صادر ہواہے۔“
شہید صدرؒایک مسلمان کو پوری دنیا میں اسلام کی ترویج اور اعلائے کلمہ حق کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔آپ کے خیال میں مرد ِ مسلماں کادل پورے عالمِ اسلام کے لیے دھڑکنا چاہیے‘اسلام کے بارے میں اُس کی آرزوئیں کسی جغرافیائی سرحد تک محدود نہیں ہونی چاہئیں۔لہٰذا فرماتے ہیں:
”میں اِس وقت انتہائی درجے کا رنج والم محسوس کررہا ہوں‘کیونکہ عراق کو کمیونزم کے خطرے کا سامناہے… لیکن اگر میرا یہ دکھ خدا کے لیے ہو‘اور میری آرزو ہو کہ زمین پر صرف خداکی عبادت کی جائے اور لوگ گروہ در گروہ دین سے خارج نہ ہوں‘تو اِس صورت میں مجھے عراق‘ایران‘پاکستان یاعالمِ اسلام کے کسی بھی ملک میں اسلام کو درپیش خطرے کے مقابل بغیر کسی فرق کے اِسی طرح غم واندوہ‘جوش وجذبے کامظاہرہ کرنا چاہیے۔“