شہیدسید محمد باقرالصدر ؒ ایک ہمہ جہت شخصیت

شہیدسید محمد باقرالصدر ؒ ایک ہمہ جہت شخصیت

انسانی تاریخ میں بہت کم ایسے مفکر پائے گئے ہیں جو ہمہ جہت اور جامع شخصیت کے مالک ہوں،جنہوں نے مختلف فکری اور عملی میدانوں میں نا م روشن کئے ہوں اور انسانی معاشرہ کے لیے قیمتی آثار یادگار چھوڑ گئے ہوں۔
شہید سید محمدباقر الصدر علیہ الرحمہ،نہ صرف عالم اسلام بلکہ تاریخ انسانی کی انہی عظیم شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے فکرو عمل کے مختلف میدانوں میں لازوال تاریخ رقم کی ہے۔
روحی اور فکری عظمت نے آپ کو تاریخ تشیع کی منفرد اور پر افتخار شخصیت بنادی ہے۔
دینداری،تقوی،نبوغ فکری،اخلاص،شجاعت، مسلسل جدوجہد،وسیع علم اور دردمندی ان کی نمایاں صفات میں سے تھیں،جو ان کی زندگی اور آثار میں جگہ جگہ مکمل طور پرہویدا ہے۔ شہید صدر نہ صرف حوزہائے علمیہ،علما اورطلاب دین کے لیے کم نظیر نمونہ و مثال ہیں بلکہ وہ تمام افراد جنہوں نے حقیقت اور علم کی راہ میں قدم رکھا ہے ان کے وجود سے کسب فیض کر سکتے ہیں اور ان کی زندگی وشخصیت کو اپنے لیے آئیڈیل قرار دے سکتے ہیں۔
اس عظیم شخصیت کی زندگی اسلام کے احیا اور شریعت کے تحفظ کے سلسلے میں بھر پور نظری اور عملی جدوجہد سے عبارت ہے۔آپ نے اس راہ میں بہت زیادہ سختیاں اور مشکلات برداشت کیں۔
شہید صدر ؒ نے اس بلند ہدف کی راہ میں، موثر فکری اور عملی قدم اٹھائے کہ آپ کی جدوجہد کے بنیادی محورکو زمان اور مکان کے تقاضوں کے مطابق معارف اسلام کی تطبیق میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔آپ نے اس موضوع کو وسیع طورپراسلامی علوم سے مربوط مسائل میں مورد بحث قرار دیا ہے اور قیمتی آثار بھی یادگار چھوڑے ہیں۔
شہید صدر ؒ کی زندگی کے بارے میں مختلف پہلووں سے بحث ہوسکتی ہے لیکن ہم یہاں تفصیل سے اجتناب کرتے ہوئے ان کی علمی،فکری اور سیاسی واجتماعی شخصیت کا اجمالی جائزہ لیں گے۔
۱۔ علمی وفکری شخصیت:
چند بعدی شخصیت،وسیع معلومات اور دانش،گہری فکر، خلاق ذہن نے آپ کو عالم اسلام کی ایک برجستہ شخصیت میں تبدیل کر دیا ہے۔ آپ کی تحقیقات اور مطالعات فقہی،کلامی ،فلسفی،تاریخی،سیاسی اور اقتصادی موضوعات پر مشتمل ہیں اور ان میں سے ہر ایک موضوع پر بے مثال آثار پیش کئے ہیں۔
ایک اہم خصوصیت جو شہید صدر ؒ کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے جدت،نقادی اور خلاقیت ہے۔ایسی خلاقیت جس نے ان کے آثار پر حیرت انگیز اثر چھوڑا ہے اور مضامین کے عمیق وجدید بننے کا سبب بنا ہے۔ جس موضوع پر بھی آپ نے قلم اٹھایا ہے آپ کی علمی جامعیت اور تخلیقی صلاحیت نے ایسے آثار چھوڑے ہیں جن میں گذشتگان کے نظریات پر نقد کے علاوہ جدید نظریات کو بھی بیان کیا ہے۔آپ کی وسعت علمی اور مختلف مکاتب اور آراء پر عبور نے اس امکان کو فراہم کیا ہے کہ متنوع موضوعات کی ہر جہت سے تحقیق کے ضمن میں جدید راہ حل اور نظریات کوبھی پیش کرے۔
شہید صدر ؒ نے بہت سے علمی اور اسلامی موضوعات پر تحقیق کی ہے جن میں فقہ،اصول،فلسفہ،منطق،تفسیر اور اقتصاد ی واجتماعی موضوعات شامل ہیں۔

۲)اجتماعی وسیاسی شخصیت:

شہید نہ صرف فکری ونظری میدان کے منفرد تھے بلکہ سیاسی اور اجتماعی میدانوں میں بھی آپ نے حیران کن اور فعال کردار ادا کیا ہے۔ آپ کی نظر میں اسلامی معاشروں کی مشکل صرف فکری اور علمی پسماندگی ہی نہیں بلکہ سیاسی بے عملی اور ظالم وبے دین حکمرانوں کا مسلط ہونا بھی ہے۔اسی لیے جوانی کے آغاز سے ہی آپ نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔نظریاتی اعتبار سے آپ کے تحقیقاتی اور علمی کاموں کا ایک مقصد حکومت اسلامی کی تشکیل کی فکر تھی۔شہید صدر ؒکی نظر میں اسلامی حکومت نہ صرف ایک دینی ضرورت ہے بلکہ انسانی تمدن کے لئے بھی ایک ضرورت ہے چونکہ یہی وہ تنہا راہ ہے جس کے ذریعے انسان کی صلاحیتیں دنیا میں شکوفا ہوتی ہیں اور اس کو اپنے طبیعی مقام(جو کہ تمدن انسانی کا اعلی مقام ہے) تک بلند کر سکتی ہے اور اس کو انتشار، پسماندگی اور نابودی سے نجات عطا کر سکتی ہے۔
عملی لحاظ سے شہید ؒ خو د اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے عراق کے ظالم حکمران سے مقابلہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور حزب الدعوۃ الاسلامیہ کی تاسیس کے ذریعے حزب بعث کے خلاف وسیع فعالیت کو منظم کیا۔شہید صدر ؒ سیاسی جدوجہد میں تنظیمی فعالیت حتیٰ مسلحانہ جدوجہد کی بھی تاکید کرتے تھے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد شہید صدر نے فکری اورعملی میدانوں میں انقلاب کی حمایت کی اور عراق کے شیعوں کو ایرانی عوامی اسلامی انقلاب کی طرح اقدام کی دعوت دی۔
شہید صدر ؒ نے عراقی عوام کو انقلاب کی طرف دعوت کے ضمن میں امام خمینی ؒ کے نقش قدم پر چلنے کی دعوت دی۔ شہید صدر ؒ کی نظر میں امام خمینی ؒ وہ شخصیت تھے جن سے امیدیں وابستہ تھیں۔ اس بارے میں عراقی عوام سے خطاب میں فرماتے ہیں:”کیا یہ معقول ہے کہ مرجع دینی جیسے امام خمینی، اسلامی حکومت قائم کریں جو ہمارا بھی خواب تھااور ہم ان کی حمایت اور تائید نہ کریں، صرف اس لیے کہ بعثی حکومت ہم سے ناراض ہوگی۔“
شہید صدر ؒکی نظر میں جو انقلاب کے لیے ایران میں اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں قتل ہورہے تھے، وہ شہیدتھے اور خدا ان کو امام حسین ؑکے ساتھ محشور کرے گا۔شہید صدر خود بھی بالآ خر اسی بڑی تمنا اور ہدف کی راہ میں بعثیوں کے ذریعے شہادت کے مقام پر فائز ہوئے۔
ا س طرح دنیا ئے اسلام کا ایک عظیم فکری سرمایہ اس حالت میں ہم سے جدا ہوا جبکہ اس دور میں عالم اسلام بالخصوص حوزہای علمیہ آپ کی مثالی شخصیت،بلند افکار اور نوآوری کا سخت محتاج تھے۔
آپ کی فکری عظمت،سوچ کی گھرائی، فکری وعملی شجاعت،خستگی ناپذیر جدوجہد اور اسلام پر عمیق ایمان، تمام مسلمان مفکروں،دانشوروں اور ذمہ دار افراد کو ا س عظیم انسان کی شخصیت وافکار کی طرف گہری توجہ اور اس کے فکری وعملی اسلوب کی پیروی کی جانب دعوت دیتا ہے تاکہ آپ کی وسیع فکر سے ایک بار پھر نئی اور جدید فکر کے متلاشی ضمیر سیراب ہوسکیں۔

بشکریہ سہ ماہی رسالت حوزہ